Baqi hisa Kya ghazwa Badar azab e ilahi thi ?

💢 یوم الفرقان اور قرآن 2 💢

2⃣ ⏪ فیصلہ کن جنگ

دوسری چیز یہ واضح رہنی چاہیے کہ معرکۂ بدر مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے مابین حق و باطل کی کسوٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا معاملہ حنین و تبوک جیسا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اسے ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا ہے۔ خود قریش مکہ بھی جنگ سے پہلے اسے یہی حیثیت دیتے تھے۔ ابوجہل نے بدر کے میدان میں جو دعا کی اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے:

اللّٰھم أعز الفئتین واکرم القبیلتین.(ابن کثیر، جلد۲)

’’اے اللہ، دونوں میں سے عزیز گروہ کو اور عزت دار شریف گروہ کو فتح عطاکر۔‘‘

اور

اللّٰھم اولانا بالحق فانصرہ.(ابن کثیر، جلد ۲)

’’اے اللہ جو حق کے قریب گروہ ہے، اُس کی مدد فرما۔‘‘

ابو جہل کی اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ خود کفار مکہ بھی ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے آئے تھے تاکہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ قرآن مجید نے بھی اس جنگ کو یہی حیثیت دی ہے۔ فرمایا:

إِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُ وَإِنْ تَنْتَہُوْا فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنْکُمْ فِءَتُکُمْ شَیْْءًا وَّلَوْ کَثُرَتْ وَأَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ.(الانفال۸: ۱۹)

’’اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو تمھارے سامنے (بدر کی صورت میں) فیصلہ آ چکا۔ اگر تم باز آ جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر تم پھر یہی کرو گے تو ہم بھی یہی کچھ کریں گے اور تمھاری جمعیت تمھارے کچھ کام نہ آئے گی، خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، (اس لیے کہ) اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔‘‘

یہی وہ چیز ہے جس نے جنگ بدر کو فرقان کی حیثیت دی۔ جسے اس آیت میں’الفتح‘ کے لفظ سے اور دوسرے مقام پر ’یوم الفرقان‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا:

إِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ أَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ.(الانفال ۸: ۴۱)

’’اگر تم اللہ پر اور اُس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر فرقان کے دن، یعنی دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ کے دن نازل کی۔‘‘

3⃣ ⏪ مسلمانوں کے اصل دشمن

تیسری چیز یہ واضح رہنی چاہیے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے اصل دشمن گو مشرکین مکہ ہی تھے، لیکن انھیں یہود اور منافقین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس لیے یہ جنگ اصل میں منصب امامت سے معزول اہل کتاب، خصوصاً بنی اسرائیل، مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کی جنگ تھی۔ چونکہ بنی اسرائیل اپنی امامت کے منصب سے محروم ہونے، اپنی دل پسند دینی روایات کی شکست و ریخت اور جزیرہ نماے عرب میں اپنے مقام و مرتبہ کے زوال کو دیکھ کر پریشان تھے، اس لیے وہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کے باوجود قریش مکہ سے گٹھ جوڑ کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ عرب میں مسلمانوں کے اصل دشمن یہی یہود اور مشرکین مکہ تھے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا.(المائدہ۵: ۸۲)

’’تم لوگوں میں اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمن ان یہود اور مشرکین ہی کو پاؤ گے۔‘‘

4⃣ ⏪ منصب امامت کی منتقلی

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہود اور مشرکین مسلمانوں کے اصل دشمن تھے، اس لیے مدینہ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطرہ ان یہود ہی سے تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لاتے ہی یہود کے قبائل سے معاہدے کرنے شروع کر دیے تھے تاکہ وہ مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ معاہدے ان کے دلوں سے اسلام کی دشمنی تو نکال سکتے تھے ، اس لیے تحو یل قبلہ کے وقت ان کا جوش اور غیظ و غضب دیدنی تھا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود اس جنگ میں مشرکین کے ساتھ درپردہ ملے ہوئے تھے۔ براہ راست اقدام وہ اس لیے نہیں کر سکتے تھے کہ معاہدات کی رو سے وہ مسلمانوں کے حلیف تھے ۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں ان کی بزدلی بھی آڑے آتی تھی۔ قرآن کا ارشاد ہے:

وَإِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِءَتَانِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْْہِ وَقَالَ إِنِّیْٓ بَرِیْءٌ مِّنْکُمْ إِنِّیْٓ أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ إِنِّیْٓ أَخَافُ اللّٰہَ وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الانفال۸: ۴۸)

’’اور یاد کرو، جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے دلوں میں کھبا دیے اور کہا: آج لوگوں میں سے کوئی نہیں کہ تم پر غالب آ سکے۔ اور میں تمھارا پشت پناہ ہوں۔ تو جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو وہ اُلٹے پاؤں بھاگا، اور بولا کہ میں تم سے بری ہوں۔ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزادینے والا ہے۔‘‘

’’سیرت و مغازی کی کتابوں سے بھی اور قرآن کے ارشادات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود شروع ہی سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے خائف تھے۔ ابھی آپ مکہ,  ہی میں تھے کہ انھوں نے طرح طرح سے قریش کو آپ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا۔ مدینہ ہجرت فرمانے اور آپ کو انصار کی حمایت حاصل ہو جانے کے بعد تو خاص طور پر انھوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ان کے سینے پر پتھر کی ایک بھاری سل رکھ دی گئی ہے۔ مستقبل کے سیاسی اندیشوں کے علاوہ خود اپنے صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی بنا پر بھی ڈرتے تھے کہ مبادا یہ وہی پیغمبر ہوں جن کا ذکر ان کے ہاں پہلے سے چلا آرہا ہے۔

اپنی بزدلی کے سبب سے وہ آپ کے خلاف براہ راست کوئی اقدام کرنے کی جرأ ت بھی نہیں کر سکتے تھے۔البتہ، درپردہ، وہ قریش کے لیڈروں کو برابر اکساتے رہے اور مدینہ میں اوس و خزرج کے اندر بھی ساز باز کرتے رہے۔ ایسے حالات میں یہ بات با لکل قرین قیاس ہے کہ قریش نے جب قافلہ کی حفاظت کے بہانے مدینہ پر حملہ کی اسکیم بنائی ہو تو اس میں یہود کا مشورہ بھی شامل رہا ہو۔ اور انھوں نے قریش کو ورغلایا ہو کہ اول تو تمھاری بھاری جمعیت خود ہی مٹھی بھر مسلمانوں کو کچل دینے کے لیے کافی ہے، لیکن ضرورت پڑی تو ہم بھی تمھاری مدد کو حاضر ہیں۔‘‘

چنانچہ اس آیت کے مطابق شیطان یعنی یہود میدان بدر سے بھاگ نکلے۔ اس طرح گویا شیطان کے خلاف، جو انسان کا ازلی دشمن ہے اور اس کے پیروکاروں کے خلاف شکست کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ مختصراً یہ کہ بدر کی فتح عرب میں شرک کی قوتوں کی شکست تھی اور پورے عرب پر اس حکومت کے قیام کے لیے پہلی بڑی فوجی کارروائی تھی جس کو سیدنا مسیح علیہ السلام نے ’’خدا وند کی پادشاہی‘‘ قرار دیا تھا۔

چونکہ بنی اسرائیل بھی امامت کے منصب سے معزول کیے جا رہے تھے اور یہ منصب اب امت مسلمہ کو سونپا جانے والا تھا، اس لیے جنگ بدر، اس معزولی اور اس ذمہ داری کے سونپنے کی وہ اہم کڑی ہے کہ جس نے ہوا کا رخ ٹھیک ٹھیک متعین کر دیا تھا کہ قدرت الٰہیہ کا منشا اس نوخیز ملت اسلامیہ کے بارے میں کیا ہے۔ یاد رہے کہ اس جنگ سے تھوڑے ہی دن پہلے شعبان ۲ھ کو تحویل قبلہ کے احکام نازل ہوئے اور ٹھیک اگلے ماہ، رمضان میں بدر کا معرکہ پیش آیا۔ تحویل قبلہ، یہود کی معزولی اور بدر کا معرکہ فتح مکہ کا پتا دے رہے تھے۔ گویا یہ اس عظیم تبدلی کے لیے ابتدائی اقدامات تھے جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل منصب امامت سے معزول کیے جا رہے تھے اور قریش مکہ ابراہیم علیہ السلام کی میراث سے محروم کیے جانے والے تھے، الاّیہ کہ وہ ایمان لے آئیں۔

( ختم

Comments

Popular posts from this blog

Peer-e-Kamil (S.A.W) By Umera Ahmad In English Page 05

Best 100 advices in urdu

Peer-e-Kamil (S.A.W) By Umera Ahmad In English Page 16